Monday, June 14, 2010

زندگی

Share
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی

تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے، ضمیر کن فکاں ہے زندگی

زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی

آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے
گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی

قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی

خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

زندگی کی قوت پنہاں کو کر دے آشکار
تا یہ چنگاری فروغ جاوداں پیدا کرے

خاک مشرق پر چمک جائے مثال آفتاب
تا بدخشاں پھر وہی لعل گراں پیدا کرے

سوئے گردوں نالہ شب گیر کا بھیجے سفیر
رات کے تارں میں اپنے رازداں پیدا کرے

یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے


شاعر کا نام : علامہ محمد اقبال
کتاب کا نام : بانگ درا
Related Posts with Thumbnails

No comments:

Post a Comment