Monday, June 14, 2010

ق

Share
جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے ،فنا ہوتا نہیں

رخت ہستی خاک، غم کی شعلہ افشانی سے ہے
سرد یہ آگ اس لطیف احساس کے پانی سے ہے

آہ، یہ ضبط فغاں غفلت کی خاموشی نہیں
آگہی ہے یہ دل آسائی، فراموشی نہیں

پردئہ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح
داغ شب کا دامن آفاق سے دھوتی ہے صبح

لالہ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ
بے زباں طائر کو سرمست نوا کرتی ہے یہ

سینہ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے
سینکڑوں نغموں سے باد صج دم آباد ہے

خفتگان لالہ زار و کوہسار و رودباد
ہوتے ہیں آخر عروس زندگی سے ہمکنار

یہ اگر آئین ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح
مرقد انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح

دام سیمین تخیل ہے مرا آفاق گیر
کر لیا ہے جس سے تیری یاد کو میں نے اسیر

یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے

وہ فرائض کا تسلسل نام ہے جس کا حیات
جلوہ گاہیں اس کی ہیں لاکھوں جہاں بے ثبات

مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے
آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے

ہے وہاں بے حاصلی کشت اجل کے واسطے
ساز گار آب و ہوا تخم عمل کے واسطے

نور فطرت ظلمت پیکر کا زندانی نہیں
تنگ ایسا حلقۂ افکار انسانی نہیں

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے


شاعر کا نام : علامہ محمد اقبال
کتاب کا نام : بانگ درا
Related Posts with Thumbnails

No comments:

Post a Comment