Monday, June 14, 2010

سرمایہ و محنت

Share
بندئہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات

ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش
اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات

نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات

کٹ مرا ناداں خیالی دیوتائوں کے لیے
سکرکی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی اندازہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول
غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک

نغمہ بیداری جمہور ہے سامان عیش
قصہ خواب آور اسکندر و جم کب تلک

آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا
آسمان! ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک

توڑ ڈالیں فطرت انساں نے زنجیریں تمام
دوری جنت سے روتی چشم آدم کب تلک

باغبان چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار
زخم گل کے واسطے تدبیر مرہم کب تلک

کرمک ناداں! طواف شمع سے آزاد ہو
اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو


شاعر کا نام : علامہ محمد اقبال
کتاب کا نام : بانگ درا
Related Posts with Thumbnails

No comments:

Post a Comment