Friday, June 11, 2010

انسان اور بزم قدرت

Share
صبح خورشید درخشاں کو جو دیکھا میں نے
بزم معمورۂ ہستی سے یہ پوچھا میں نے

سیم سیال ہے پانی ترے دریاؤں کا
پر تو مہر کے دم سے ہے اجالا تیرا

تیری محفل کو اسی شمع نے چمکایا ہے
مہر نے نور کا زیور تجھے پہنایا ہے

یہ سبھی سورۂ 'والشمس' کی تفسیریں ہیں
گل و گلزار ترے خلد کی تصویریں ہیں

تیری محفل میں کوئی سبز ، کوئی لال پری
سرخ پوشاک ہے پھولوں کی ، درختوں کی ہری

بدلیاں لال سی آتی ہیں افق پر جو نظر ہے
ترے خیمۂ گردوں کی طلائی جھالر

مے گلرنگ خم شام میں تو نے ڈالی
کیا بھلی لگتی ہے آنکھوں کو شفق کی لالی

پردۂ نور میں مستور ہے ہر شے تیری
رتبہ تیرا ہے بڑا ، شان بڑی ہے تیری

زیر خورشید نشاں تک بھی نہیں ظلمت کا
صبح اک گیت سراپا ہے تری سطوت کا

جل گیا پھر مری تقدیر کا اختر کیونکر؟
میں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگر

کیوں سیہ روز ، سیہ بخت ، سیہ کار ہوں میں؟
نور سے دور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میں

بام گردوں سے وہ یا صحن زمیں سے آئی
میں یہ کہتا تھا کہ آواز کہیں سے آئی

باغباں ہے تری ہستی پے گلزار وجود
ہے ترے نور سے وابستہ مری بود و نبود

عشق کا تو ہے صحیفہ ، تری تفسیر ہوں میں
انجمن حسن کی ہے تو ، تری تصویر ہوں میں

بار جو مجھ سے نہ اٹھا وہ اٹھایا تو نے
میرے بگڑے ہوئے کاموں کو بنایا تو نے

اور بے منت خورشید چمک ہے تری
نور خورشید کی محتاج ہے ہستی میری

منزل عیش کی جا نام ہو زنداں میرا
ہو نہ خورشید تو ویراں ہو گلستاں میرا

حلقۂ دام تمنا میں الجھنے والے
آہ اے راز عیاں کے نہ سمجھے والے!

ناز زیبا تھا تجھے ، تو ہے مگر گرم نیاز
ہائے غفلت کہ تری آنکھ ہے پابند مجاز

نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے
تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے



شاعر کا نام : علامہ محمد اقبال 
کتاب کا نام : بانگ درا
Related Posts with Thumbnails

No comments:

Post a Comment