Friday, June 11, 2010

ماہ نو

Share


ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل

طشت گردوں میں ٹپکتا ہے شفق کا خون ناب
نشتر قدرت نے کیا کھولی ہے فصد آفتاب

چرخ نے بالی چرا لی ہے عروس شام کی
نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی

قافلہ تیرا رواں بے منت بانگ درا
گوش انساں سن نہیں سکتا تری آواز پا

گھٹنے بڑھنے کا سماں آنکھوں کو دکھلاتا ہے تو
ہے وطن تیرا کدھر ، کس دیس کو جاتا ہے تو

ساتھ اے سیارۂ ثابت نما لے چل مجھے
خار حسرت کی خلش رکھتی ہے اب بے کل مجھے

نور کا طالب ہوں ، گھبراتا ہوں اس بستی میں میں
طفلک سیماب پا ہوں مکتب ہستی میں میں



شاعر کا نام : علامہ محمد اقبال 
کتاب کا نام : بانگ درا
Related Posts with Thumbnails

No comments:

Post a Comment