نظمیں
بلاد اسلامیہ
ستارہ
دوستارے
گورستان شاہی
نمود صبح
تضمین بر شعر انیسی شاملو
فلسفہ غم
پھول کا تحفہ عطا ہونے پر
ترانہ ملی
وطنیت
ایک حاجی مدینے کے راستے میں
قطعہ
شکوہ
چاند
رات اور شاعر
بزم انجم
سیر فلک
نصیحت
رام
موٹر
انسان
خطاب بہ جوانان اسلام
غ رہ شوال یا ہلال عید
شمع اور شاعر
مسلم
حضور رسالت مآب میں
شفاخانہ حجاز
جوابِ شکوہ
ساقی
تعلیم اور اس کے نتائج
قرب سلطان
شاعر
نوید صبح
دعا
عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں
فاطمہ بنت عبداللہ
شبنم اور ستارے
محاصرہ ادرنہ
غلام قادر رہیلہ
ایک مکالمہ
میں اور تو
تضمین بر شعر ابوطالب کلیم
شبلی وحالی
ارتقا
صدیق
تہذیب حاضر
والدہ مرحومہ کی یاد میں
ق
شعاع آفتاب
عرفی
ایک خط کے جواب میں
نانک
کفر و اسلام
بلال
مسلمان اور تعلیم جدید
پھولوں کی شہزادی
تضمین بر شعر صائب
فردوس میں ایک مکالمہ
سعدی
جنگ یرموک کا ایک واقعہ
مذہب
پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ!
شب معراج
پھول
شیکسپیر
میں اور تو
اسیری
دریوزہ خلافت
ہمایوں
خضر راہ
زندگی
سلطنت
سرمایہ و محنت
دنیائے اسلام
غزلیات
اے باد صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا
یہ سرود قمری و بلبل فریب گوش ہے
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
پردہ چہرے سے اٹھا ، انجمن آرائی کر
پھر باد بہار آئی ، اقبال غزل خواں ہو
کبھی اے حقیقت منتظر نظر لباس مجاز میں
تہ دام بھی غزل آشنا رہے طائران چمن تو کیا
گرچہ تو زندانی اسباب ہے
ظریفانہ
مشرق میں اصول دین بن جاتے ہیں
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں
یہ کوئی دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند!
تعلیم مغربی ہے بہت جرءت آفریں
شام کی سرحد سے رخصت ہے وہ رند لم یز
کچھ غم نہیں جو حضرت واعظ ہیں تنگ دست
تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ!
انتہا بھی اس کی ہے؟ آخر خریدیں کب تلک
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
''اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے''
ہاتھوں سے اپنے دامن دنیا نکل گیا
وہ مس بولی ارادہ خودکشی کا جب کیا میں نے
ناداں تھے اس قدر کہ نہ جانی عرب کی قدر
ہندوستاں میں جزو حکومت ہیں کونسلیں
ممبری امپیریل کونسل کی کچھ مشکل نہیں
دلیل مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہوگی
فرما رہے تھے شیخ طریق عمل پہ وعظ
دیکھے چلتی ہے مشرق کی تجارت کب تک
گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یوں گرم سخن
رات مچھر نے کہہ دیا مجھ سے
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں
یہ کوئی دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند!
تعلیم مغربی ہے بہت جرءت آفریں
شام کی سرحد سے رخصت ہے وہ رند لم یز
کچھ غم نہیں جو حضرت واعظ ہیں تنگ دست
تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ!
انتہا بھی اس کی ہے؟ آخر خریدیں کب تلک
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
''اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے''
ہاتھوں سے اپنے دامن دنیا نکل گیا
وہ مس بولی ارادہ خودکشی کا جب کیا میں نے
ناداں تھے اس قدر کہ نہ جانی عرب کی قدر
ہندوستاں میں جزو حکومت ہیں کونسلیں
ممبری امپیریل کونسل کی کچھ مشکل نہیں
دلیل مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہوگی
فرما رہے تھے شیخ طریق عمل پہ وعظ
دیکھے چلتی ہے مشرق کی تجارت کب تک
گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یوں گرم سخن
رات مچھر نے کہہ دیا مجھ سے
No comments:
Post a Comment